True story of Muhammad Sabir Arif in Urdu

True Story of Muhammad Sabir Arif:

Umeed hai ke ap ye Muhammad Sabir Arif ki true story par kr ye jaan jaye ge mehnant kabi rahega nhi jati hai aur kis tarha ek khora chunne wala aur jhonpar patti mein rehne wala bacha aj kahan phunch gaya hai.

True story of Muhammad Sabir Arif
True story of Muhammad Sabir Arif


محمد صابرعارف کی زندگی کا جائزہ

یہ ایک ایسی سچی کہانی ہے جس کو پڑھنے کے بعد آپ کو اس بات کا احساس ہوجائے گا اگر انسان کسی چیز
 کو پانے کیلئے محنت کریں تو وہ چیز ایک نہ ایک دن انسان کو ضرور ملتی ہے یہ کہانی ہے محمد صابر عارف کی جس کا تعلق لاہور سے ہے اور ان کی پیدائش ایک جونپڑ ی میں ہوئی تھی اور یہ بات تو ہم سب جانتے ہے کہ جونپڑی نہ ہی بجلی موجود ہوتی ہے اور نہ ہی دیگر سہولت صابر کا تعلق بے حد غریب جاندان سے تھا ان کے والد گدھا گاڑی چلایا کرتے تھے جبکہ ان کی والدہ دوسروں کے گھروں میں کام کر کے اپنے بچوں کو پالتی تھیں اور صابر اپنے بچپن میں کوڑا اٹھایا کرتے اپنے والد کے ساتھ گدھا گاڑی چلایا کرتے اور بسوں میں پانی بھی بیچا کرتے تھے جب ان کی عمر ۵ سال تھی تو وہ روز صبح کوڑا چوننے لاہور شہر کو جایا کرتے تھے صابر کے مطابق وہ سارا دن کوڑا چونتے اور کوڑا چونتے ہوئے انہیں جو اخبار ملتے ان کو وہ اپنے گھر لے آتے اور اس کو پڑھنے کی کوشیش کرتے ان کے ساتھ جونپڑ پتی میں رہنے والے ان کے دوست اور تمام جونپڑ پتی کے لوگ ان کا مزاق اڑیا کرتے تھے ان کو گھر سے ڈنٹ ملتی تھی کہ یہ کن کاموں میں لگا ہے لیکن صابر کو پڑھنے کا بے حد شوق تھا اور یہ شوق انہیں اسکول تک لے گیا تھا لیکن صابر کو گھر میں کوڑا چونکے پیسے بھی دینا ہوتا تھا اور صابر صبح کو کوڑا چونتے اور پھر اسکول پڑھنے چلے جاتے تھے صابر کے مطابق اسکول میں بھی ان کا مزاق اڑیا جاتا تھا اور انہیں برے نام کے ساتھ پکارا جاتا تھا اور ان کے ٹیچر بھی کوڑا چوننے والا بچہ سمجھ کر ان کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے لیکن انہی سب تعسب نے انہیں اور ہمت دی۔


صابر کو انگریزی سیکھنے کا بے حد شوق تھا انہوں نے پانچویں کلاس سے ہی انگریزی سیکھنا شروع کر دی تھی شروع شروع میں تو صابر کو انگریزی تک پڑھنا نہیں آتی تھی لیکن انہوں نے دن رات انگریزی اخبار کو پڑھ پڑھ کر انگریزی کو سیکھنا شروع کر دی آٹھویں کلاس میں صابر نے ۸۰۰ میں سے ۶۷۴ نمبر حاصل کیے اور ان کو تین سو روپے کی اسکولرشب بھی دی گئی صابر کے لیے یہ اسکولرشب بے حد اہمیت کے حامل تھی اور انہو ں نے اس پیسے سے ناویں اور دسویں جماعت کی کتاب اور اسکول کا یونیفارم خریدلیا صابر نے انگریزی میں اتنی مہارت حاصل کرلی تھی کہ یہ اپنے کلاس میٹ کو انگلش کی ٹیوشن دینا شروع کردی تھی اور کوڑا چوننے کا کام چھوڑ کر گھروں میں اخبار دینے کا کام شروع کر دیا صابر کے لیے ایک ایک روپے کی اہمیت تھی صابر کوانگریزی کا اتنا شوق تھا کہ یہ اسکول کی کتابوں کے علاوہ انگریزی کی دوسری کتابیں بھی پڑھا کرتے تھے ایک دفعہ صابر کی والدہ ان کے لیے رادی کی دکان سے چند کتابیں صابر کے لیے لے آئی ان میں ایک نوول تھا جس کا نام گریڈ ایکسپی ٹیشن تھا اور اس نوول نے ان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا اس نوول میں بھی ان کے جیسا ایک کردار تھا جو اپنی محنت سے کامیاب ہوجاتا ہے صابر نے میڑک پاس کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے چارٹرڈ انسٹیوڈ آف مینجمنٹ اکاونٹزبھی کر لیا اس کے علاوہ یہ مختلف جاب کرنے لگے یہ بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتے تھے صابر کے مطابق ان کی زندگی ہی تبدیل ہوکر رہ گئی اور ان کی جونپڑ پتی میں کسی کو یقین تک نہیں ہوتا تھا کہ صابر کہاں سے کہاں پہنچ گیا صابر کی ملاقات لاہور کنسیلٹ کے ایک پروگرام میں ایک امریکی خاتون سے ہوئی وہ صابر کی زندگی کی کہانی جان کر بے حد حیران ہوئی اور انہوں نے صابر کو امریکا میں ایک پروگرام میں اپلاء کرنے کا مشورہ دیا صابر نے اپلاء کیا اور صابر اس پروگرام میں منتخب کرلیا گیا اور وہ امریکا پہنچ گیا اور پھر پاکستان آکر انہوں نے ایک این جی آو کا سیٹ آپ کر لیا جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے این جی آو سے کورڈنینٹ کر کے غریب بچوں کا خیال رکھتی تھی ۲۰۱۴ اور ۲۰۱۵ میں صابر پھر سے کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکا پہنچ گئے یہ ۳۰ سالہ صابر کئی مملک کا سفر بھی کر چکے ہیں اوراب اپنی آرگنائزیشن چلا رہے ہیں۔

No comments

Powered by Blogger.